Wednesday, 27 January 2016

السی انجیر تخم کتان روغن کتا ن

  Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net 
انجیر ( fig )
دیگر نام ۔
اردو ، ہ دی ، پ جاپی ، ب گالی ، مر ہٹی میں ا جیر ا گر یزی میں fig فرا سیسی میں figue روسی ، جرم میں feigs لاطی ی میں ficus carica اطالو ی میں fico عبرا ی میں teenah یو ا ی میں suiko ہسپا وی میں higo کر ا کی میں یڈ یڈ اور فا رسی میں جمیر کہتے ہیں ۔ 

قرآ نی نام ۔
تی ، طبس ، ۔

نبا تاتی نام
gacus caraica
فیملی ۔
یہ بڑ فیملی کا یع ی گو لر جا تی کا پو دا ہے۔
ماہیت ۔
ا جیر کا پو داتقریباًچھ سے دس یا بارہ فٹ او چا ہو تا ہے ۔ یہ دو قسم کو ہو تا ہے ۔ ایک خودرد (ج گلی )دوسرا کا شت کیا ہو ا ۔ اس کی قلمیں عموماًماہ پھا گ (فروری کے وسط اور ما رچ کے شروع ) میں کاٹ کر تھوڑی دور لگائی جاتی ہیں ۔ دو سے تی سال تک پودا مکمل ہو کر پھل دی ے لگتا ہے اور اس کے ہر جز سے دودھ کلتا ہے ۔
پتے ۔
بڑ ے اور کھردرے ہوتے ہیں ۔

 پھل ۔
ا جیر کا پودا ایک سال میں دو بار پھل دیتا ہے ۔ پہلے مئی کے وسط میں اور جو کے پہلے د و ں جبکہ دوسرا پھل مارچ کے وسط میں اور اپر یل کے شروع میں ، یہ گولر کی طرح گول گول ر م گولہ ما گچھوں میں لگتا ہے ۔ کچا پھل سبز اور پک ے میں شیر یں اور لذیذ ہو تا ہے۔ ا جیر کا پھل کچی حالت میں سخت لیک پک کر ر م ہو جاتا ہے ۔
مقا م پیدائش ۔
خیا ل کیا جاتاہے کہ ا جیر ایشیا ئے کو چک میں سمر ا کے مقام کی پیدا وار ہے ۔ یہ افعا ستا ،ایرا ،چی اور جاپا میں اس کو تجا رتی لحاظ سے کا شت کیا جاتاہے ۔ بر صیغر میں ا جیر کی کا شت ات ی مہیں ہو تی کہ عوام کی ضروریا ت پو ری ہو سکے ۔تاریخ سے معلو م ہو تا ہے کہ بر صیغر میں ا جیر ایرا اور عرب سے آ ے والے اطباء ے بو یا ، اس سے قبل ا جیر یہاں ہیں پائی جاتی تھی ، 
ا جیر کا مزاج ۔
گرم و سرد معتدل کا مزاج تروتازہ کا شری ی کی وجہسے تھوڑا ساگرم اور ماہیت کی زیا دتی کے حکیم ارشد ملک ے ا جیرکا مزاج تروتازہ اور زیادتی کا مزاج باعث لکھا ہے جبکہ مخز الادویہ میں گرم ایک تر دوسرے درجے میں ہے لیک طبی فارما کو رپیا میں ا جیر کا مزاج صرف گرم تر لکھا ہے۔
زنانہ و مر دانہ کمزوری کا پو شیدہ علا ج 
رنگت
 ۔ کچاپھل سبز پکنے پر سرخی مائل بھورا یا جامنی ہو تا ہے۔
ذائقہ ۔
شیریں ۔
افعال ۔
جالی، منفث ، بلغم ، مدربول ، مفنج ، اورام ، محلل، مقوی و مسمن بدن ، ملین شکم ، معرق ملطف اور معد ی ،قطع بواسیر اور نقرس ، ۔
افعال خواص ۔

 کیثر القداء اورسریع الہضم ہے۔خشک انجیر گرم اور لطیف ہے۔اس سے رقیق خون پید ا ہو تا ہے ۔انجیر تمام میوہ جا ت سے زیاد ہ سے زیا دہ غذا بخش ہے۔ یہ گرم تر ہو نے کی وجہ سے منفج ہے اور حرارت و رطوبت کے علا وہ گودے والا انجیر زیادہ منفج دیتاہے۔ اور اس انتہا درجہ کی قوت تلیسین ہے ۔پسینہ لاتی ہے حرارت کو تسکین دیتاہے ۔
 انجیر کا دودھ جمے ہو ئے خون اور دودھ کو پگھلا تا دیتا ہے ۔ انجیر اپنی حرارت ، رطوبت اور لطافت کی وجہ سے اس کا ضما د پھورڑوں کو پکاتا ہے ۔اور جو پیاس بلغم شور کی وجہ سے ہو اس کو تسکین دیتا ہے ۔ کیونکہ یہ بلغم کو پگھلا تا ہے ۔ اوررقیق کرتا ، جس کی وجہ سے پر انی کھانسی میں مفید ہے ۔ جو کھا نسی محض بلغم کی وجہ سے ہو انجیر تنقیہ کر کے پر انی کھا نسی کو نفع کر تا ہے ۔ انجیر اپنی قوت تفتج اورجلا کے باعث پیشا ب کا ادار کر تا ہے جگر اور طلحال کے سدوں کو دفو کر دیتا ہے ۔یہ گردے اور مثا نے کے لیے موافق ہے ۔ انجیر نہار منہ کھا نے سے مجا رئی غذا کے کھولنے میں عجیب منفث حا صل ہے ۔خصوصاًجبکہ اس کو بادام یا اخروٹ کے ساتھ کھایا جائے ،
 استعمال ۔
حلق کی خشو نت کو دور کر تا ہے ۔قبض کو کھولتا ہے ۔معرق ہو نے کی وجہ سے فضلا ت کو جلد کی طرف جا رج کر تا ہے ۔اس لئے چیچک ،خسر ہ ،موتی ، جھرہ کے دانے جلد پر یعنی با ہر نکالتا ہے ۔مغزاخروٹ کے ہمراہ کھا نا تقویت باہ کیلئے بہتر بیان کیا جا تاہے ۔
محلل کے بطو ر سفوف سکنجین کے سا تھ تلی کے ورم میں مفیدہے جبکہ انجیر کو پانی میں جوش دے کر غر غرہ کے طو ر برخناق کو مفید ہے ۔بطو ر ضماد خنا زیر ی گلیٹوں پر لگا نا مفید ہے اور معجو ن کے طور پر استعمال کر نے سے ورم رحم ومقعد کے علا وہ بواسیر کے دردکو بھی مفید ہے

۔ جالی ہو نے کی وجہ سے امراض جلد یہ میں اور خاص طور پرچھیت میں ،بر ض اور کلف میں ضماداًمفید ہے۔
حکیم رام لبھایا لکھتے ہیں کہ انجیر اور صقر کا جو شاندہ پلانے سے بلغم کو صا ف کر تا ہے ۔ جبکہ نسیا ن میں انجیر کے ساتھ بادام ، پستہ یا مغز یا ت کا استعمال مفیدو مقوی دماغ ہے۔
انجیرکا قر�آن پا ک میں ذکر ۔
ترجمہ ۔
قسم ہے انجیر اور زیتو ن کی اور طور سینا کی اس امن والے شہر کی کہ ہم نے انسان کو بہترین انداز کے ساتھ پید ا کیا ہے۔
انجیر کے بارے میں ارشا د نبو یْ ﷺ ۔
حضر ت ابو الد ر داءؓ روایت فرما تے ہیں کہ نبی کر یم ﷺ کی خدمت مین کہں سے انجیر سے بھر ا ہو تھا ل آیا ۔ انہوں نے ہمہیں فرما یا کہ ،کھاؤ ، ہم نے اس میں کھایا اور پھر ارشا د فریا یا اگر کو ئی پھل جنت سے زمین پر آسکتا ہے تو میں کہو ں گا کہ یہی وہ پھل ہے کیو نکہ بلا شبہ جنت کا میو ہ ہے ۔ اس میں سے کھا ؤ کہ یہ بواسیر کو ختم کر دیتی ہے اور نقرس (میں مفید ہے )۔ 
کتب مقدسہ میں انجیر کی اہمیت ۔
توریت اورانجیل میں انجیر کو زکر مختلف مقا ما ت پر 49مرتبہ کیا گیا ہے۔
تب درختو ں نے انجیر کے درخت سے کہا کہ تو آاور ہم پر سلطنت کر ، پر انجیر کے درخت نے کہا میں اپنی مٹھاس اور اچھے اچھے پھلو ں کو چھوڑ کر درختوں پر حکمرانی کر نے جاؤں ۔
انجیر کے درختوں میں ہر انجیر پکنے لگے اور تاکیں پھوٹنے لگیں ۔انکی مہک پھیل رہی تھی ۔
انجیر کے بارے میں محدثین کے مشاہدات ۔

 حافظ ابن قیم ۔ لکھتے ہیں کہ انجیر ارض حجازاور مدینہ میں نہیں ہوتی بلکہ اس علا قہ میں عام پھل صرف کھجور ہی ہے لیکن اللہ نے قرآن پاک میں اس کی قسم کھائی ہے اور امر میں کوئی شک نہیں کہ اس سے حاصل ہو نے والے افا دیت اور منا فع بے شمار ہیں ۔اس کی بہترین قسم سفید ہے ۔یہ گردہ اور مثانہ سے پتھر ی کو حل کر کے خارج کر تی ہے۔
انجیر بہترین غذا ہے اور زہر وں کے اثرات سے بچاتی ہے ۔ حلق کو سو زش ، سینے میں بو جھ ، پھیپھڑوں کی سوجن مفید ہے اور جگر اور تلی کے اصلا ح کر تی ہے۔ بلغم کو پتلا کر کے نکلتی ہے ۔
جا لینو س ۔
نے کہا کہ انجیر کے ساتھ زبو اء اور بادام ملا کر کھا لئے جا ئیں تو یہ خطر ناک زہر وں سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔اس کاگو دا بخا ر کے دوران مریض کے منہ کو خشک نہیں ہونے دیتا ہے۔ نمکین بلغم کو پتلا کر کے نکلتی ہے۔گردہ اور مثانہ کی سو زشوں کے لئے مفید ہے۔
انجیر کو نہا ر منہ کھانا عجیب و غریب فوائد کا حامل ہو تاہے ۔کیو نکہ یہ آنتو ں کے بند کھولتی ، پیٹ سے ہو ا نکلتی ہے۔اس کے ساتھ اگر بادام بھی کھا ئے جائیں تو پیٹ کی اکثر بیما ریو ں کو دور بھگاتی ہے۔
انجیر میں پائے جانے والے کیمیاوی اجزاء کا متناسب سو گرام میں ۔

 لحمیات پانچ ء ایک نشاستہ0ء15،حدت یا حرارے 66،سوڈیم 6ء24،پوٹاشیم 8ء28،کیلشیم 5ء8,،میگنیشم 2ء26، وٹامن اے اورسی ، فولاد18ء1،تانبا 07ء0،فاسفورس 6ء2،گندھک 9ء22،کلورین 1ء7،
نفع خاص۔
موتی جھرہ ، جدری وغیرہ میں دانوں کو ظاہر کر نے کیلئے مفید ہے۔ ملین طبع اور مدربول ، قبض ،دمہ ،سعال ،کھانسی کے علاوہ رنگت کو نکھارتاہے۔ اور جسم کو فربہ کرتاہے۔ تلی کی صلاحیت وورم میں مفید ہے۔
مضر 

۔ طبی فارماکو پیا کے مطابق جگرہ معدہ وآنت ، سدہ و جگر کو ۔
مصلح۔
سکنجین ،شربت ترنج ، انیسوں ،صعتر فارسی ،بادام شرین
بدل ۔
موویز منفی ،مغز چلغوزہ ۔
مقدارخوراک ۔ 

طبی فارماکو پیا دو سے تین دانے ،شربت اورجو شاندہ میں مستعمل ہے۔ جدری اور دیگر مستعدی امراض میں دو سے تین خشک انجیر کھلائیں ۔
قبض کیلئے کم ازکم پانچ خشک انجیر ، جبکہ بواسیر کیلئے میرا خود ذاتی تجر بہ ہے کہ تین ، پانچ یا سا ت عدد دانے دینے سے درد کو فوری آرام آتا ہے۔پیٹ سے ریا ح کو خارج کر تا ہے۔
جدید تحقیق اور تجربہ ۔
مذکورہ کیمیا وی اجزاء کے علا وہ وٹامن اے اور و ٖٹامن سی کا فی مقدار میں موجو د ہو تے ہیں ۔
ان اجزاء کے پیش نظر انجیر ایک نہا یت مفید غذا اور دواء ہے۔ اس لئے عام کمزوری اوربخاروں میں اس کا استعمال اچھے نتائج کا حامل ہو گا ۔
بو اسیر میں انجیر خشک کو عام طور پر چارماہ سے دس ماہ تک استعمال کرنے سے مسے خشک ہو جاتے ہیں۔ اگر بو اسیر کے ساتھ بد ہضمی زیا دہ ہو تو ہر کھا نے سے پہلے آدھ گھنٹہ پہلے دو سے تین انجیر کھلائی جائے ۔ جن کوصرف پیٹ میں بوجھ ہو تو ان کو کھا نے کے بعد انجیر کھا نی چائیے ۔
انجیر پرانی قبض کا بہترین علاج ہے ۔اس کے گودے میں پائے جانے والا دودھ ملین اور چھوٹے چھوٹے دانے پیٹ کے حمو ضا ت میں پھول کر آنتوں میں حرکا ت پیدا کر نے کا با عث ہوتے ہیں ۔انجیر خوراک کو ہضم کرنے اور آنتو ں کی سڑاند ختم کرتی ہیں۔ انجیر خون کی نا لیو ں میں جمی ہوئی غلاظتو ں کو نکال سکتی ہے اور اسکی افادیت کو آپ ﷺ نے بواسیر میں پھولی ہو ئی دریدوں کی اصلا ح کر نے کے لئے استعمال فرما یا ۔ خون کی نا لیو ں میں موٹا ئی آجا نے سے ہو تی ہے۔ انجیر اس مشکل کا آسان حل ہے۔
انجیر گردوں کے فیل ہونے کے علاوہ خشک انجیر کو جلا کر دانتوں پر منجن کیا جائے تو دانتو ں سے رنگ اور میل کے داغ اتر جاتے ہیں 
۔ْانجیر کے تازہ پھل سے نچوڑ کر اگر مسوں پر لگایا جائے تو وہ گر جا تے ہیں ۔اس کے پتے پھوڑوں کو پکا نے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔
انجیر کو خشک کر نے کا طریقہ۔
خشک کرنے کے لئے انجیر کو اس وقت تک پو دے پر رہنے دیا جا تاہے کہ جب تک وہ خوب پک کر زمین پر گر جائے کیو نکہ اس مر حلہ تک تقر یباً 3/4حصہ تک خشک کیا جاتاہے۔پھر ان کو کشتیو ں میں ڈبو کر رکھ کر جما لیا جاتاہے پھر ان پر گندھک کے مر طوب و خا ن پر 20سے30منٹ تک گزارا جا تاہے ۔پھر ان کو لکڑی کی کشتیو ں میں رکھ کر دھو پ میں رکھتے ہیں اور 5سے7دن تک ان کو الت پلٹ کرتے ہیں ۔خشک ہونے کے سے کچھ قبل ان کو دبا کر چپٹا بنا لیا جاتاہے بعد میں ان کو نمک کے محلو ل میں ڈبو لیا جاتا ہے جس سے ان میں نرمی اور ذائقہ پید ا بر قرار رہتا ہے۔ 
نوٹ ۔
طبی فار ماکو پیا اورحکیم کبیر الدین نے لکھا ہے کہ انجیر معدہ وجگر اور آنتو ں کے لئے مضر ہے مگر اچھے استعمال سے اور ڈاکڑ اور حکیم کے مشورے سے یہ اچھا بھی ثابت ہو تا ہے۔
تا ثیر ی عمر ۔
دوسال ۔

   Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net 
السی(تخم کتان )(lin seed )
نباتی یا لاطینی نام ۔
(( linum usitatissimun linn
فیملی ۔
(lineae )
مختلف نام ۔
عربی میں بزرالکتان ، فارسی میں بزرک ،گجراتی میں الشی ، بنگالی میں تیشی ،سنسکر ت میں بڈگنڈھا ،مرہٹی میں آتشی ہندی میں السی و تلیسی ۔
ماہیت ۔
السی کو پو دا برصیغر میں بکثرت کا شت کیا جاتا ہے ۔اس پو دے کی اہمیت اس سے حاصل ہو نے والے بیج ہیں جوکہ بر آمد کی جا نے والی ایشاء میں نہایت اہم ہیں ۔یہ تخم روغن ،چمکدار ، گہرے بھورے ،سرخ یا بھو رے یا سرخ سیا ہی مائل ،شکل میں چپٹے بیضوی ،قدرے لمبے اور نوکدار ہوتے ہیں ۔یہ تخم اور ان سے نکلا ہو ا روغن طب میں دواًء مستعمل ہے۔ 
ذائقہ ۔
پھیکا ۔
مقام پیدائش ۔
پاکستان ، ہندوستان ۔، مصر ، روس ، انگلستان۔
مزاج ۔
گرم و خشک درجہ اول
سیارہ ۔
قمر ۔

 افعال ۔
محلل ورم ، منفج ،جالی ، مسکن ،درد ،منفث بلغم ، مقئی ، مدرخفیف ،ملین، خراش ، حلق ، وافع سعال ۔
استعمال۔
محلل ورم ہونے کی وجہ جملہ اقسام کے برابراورام اور پھوڑے پھنسیو ں پر اس کا ضمادکیا جا تاہے۔ لیکن اگر ورم پکنے لگا ہو تو اس کو بہت جلد پکا کر پھو ڑ ڈالتا ہے اور بعد ازاں اخراج موادپر معین ہوتا ہے ۔ اور بعد ازاں اخراج مواد پر معین ہو تاہے۔ ظاہری اورام کے علا وہ باطنی مثلاًذات الریہ ،ذات الجنب ، ورم عروق خشنہ ،ورم ہا ریطون اور ورم مفاصل میں السی کا ضما د باندھنا مفید ہے۔ لیکن ان حالات میں اس کی تا ثیر کو قو ی کر نے کے لئے ضماد کی سطح پر باندھتے وقت قدرے رائی باریک شدہ چھڑک لے جاتی ہے۔ جالی ہو نے کی وجہ سے سرکہ کے ہمر اہ طلا ء کر نے سے جھائیں ،داد اور ثبور لبینہ کے لیئے مفید ہے 

۔ السی کا لعا ب پانی میں ٹپکا نے اور اردگرد طلا ء کر نے سے آنکھ کے سرخی زائل ہو جا تی ہے۔ السی کو جلا کر اور باریک پیس کر جراحا ت پر چھڑکنا ان کو خشک کرنے کے علا وہ لزع اور درد کو تسکین بکشنے کیلئے مفید ہے۔ مخرج بلغم ہونے کی وجہ سے سرفہ بلغمی اور ضیق النفس میں مفید ہے۔السی کو باریک پیس کر شہد میں ملا کر چٹا یا جا تا ہے۔ اس کا جو شاندہ ملطف بلغم ہونے کے علاوہ سو زش حلق میں جب کہ کھانسی کی شدت ہو فا ئدہ بخشتا ہے۔ 
السی کو فتہ کو جو ش دے کر پلا نے سے اخراج بلغم کر تا ہے ۔اورقے لاتا ہے اس جو شاندہ میں شہد ملاکر پلا تے ہیں ۔مدر خفیف ہو نے علا وہ گروہ ، مثانہ ، زخم ، قرح سو زاک میں بھی اس کا استعمال بے حد مفید ہے۔ ڈوشن یا حقنہ رحم اور آمعا ء کے اورام وقروح کے لیے مفید ہے۔
 نفع خاص ۔
مخرج بلغم ،اسہال بلغمی میں نا فع اور ادرار کے لئے بھی مفید ہے۔
مضر ۔
معدہ اور ہا ضمہ کو خر اب کر تی ہے۔ السی دیر ہضم ہے۔
مصلح ۔
شہد ۔کشینز اور سکنجین ۔ 
بدل ۔
تخم اور میتھی یا تخم جلسہ ۔
مقدار خوراک ۔
پانچ سے دس گرام ۔۔۔
جدید کیمیا وی ۔
تجزیہ کے بعد السی میں مندرجہ زیل اجزاء ۔گلوکو سائیڈ ۔ لینا مارین ۔ روغن کثیف ۔ لعاب دار اجزاء ۔ مو م ۔ شکر ۔ فا سفیٹس ۔ اجزاء لمیہ پائے جاتے ہیں

۔ خاص ترکیب استعمال۔
السی نیم کوفتہ کا ضما د یا السی کے تیل کی مالش وجع المفا صل میں مسکن درد ہے۔
السی پیس کر دوچند شہد میں ملا کر دینے سے امراض تنفس میں مفید ہے،۔ اور السی کو پہلے بھون کر پھر پیس کر شہد میں ملا کر دینے سے امراض حلق اور امراض تنفس خاص طور پر دمہ میں مفید ہے۔
جالی ہونے کی وجہ سے داغ ، دھبے ،داد جھائیں اور ثبور میں ضما د اًمفید ہے۔ 

مشہو ر مر کبا ت
 ۔ لعو ق کتان ،حب سعال ،لعو ق معتدل ،لعوق ربو ،شربت صدر وغیرہ ۔۔
۔ السی کا تیل ۔
(lin seed oil daamond )
مختلف نام ۔
عربی میں دہن الکتان ، فارسی میں روغن کتان ،بنگلہ میں تلیسی تیل ، انگر یزی میں لن سیڈ آئل 

۔ ماہیت ۔
السی کا پو دا گہیوں کے ساتھ بو یا جا تاہے۔ نیلے پھول والی بھورے رنگ کے عمو ماً ہر جگہ پیدا ہو تی ہے اس کا پو دا دو سے چا ر فٹ اونچا ہو تا ہے ۔
پھول ۔
نیلا لاجورد رنگ کا خو بصو رت ہو تا ہے۔
پھل ۔
چنے کے بر ابر ایک پر دے میں جس کے اند ر تخم بھرے ہوتے ہیں ۔
تخم ۔
چھوٹے چھو ٹے چمکدار ، چکنے ، سیا ہی ما ئل چٹپے ،بیضوی اور قدرے نوک دار ہو تے ہیں ۔ جن سے تیل نکا لا جاتاہے۔ جو بطور غذا استعمال کیا جا تاہے۔ 
   Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net 
رو غن کتا ن ۔
نہا یت شفاف اور بے رنگ ہو تا ہے اور بغیر حرارت کے تیا ر کیا جا تا ہے لیکن جو تیل بازار میں ملتا ہے گہر ابازردی مائل بھورے رنگ کا ہو تا ہے
۔ رو غن مزاج ۔
گرم ، تر، درجہ اول ۔
خاص افعال ۔
محلل اورم ،مسکن اوجاع ، جالی اور نافع قرو ح ہے
۔ استعمال ۔
محلل اورم اورمسکن اوجا ع ہونے کے با عث اکثر دردوں میں اس کے مالیش کی جاتی ہے۔جالی ہو نے کے باعث کلف ،داد وغیرہ جلدی امراض پر طلا کیا جاتاہے۔ قروح آمعا ء مستقیم کے زیریں
کے اندر کی جاتی ہے۔ اور روغن السی بہت سے مر اہم میں بطور جزو اعظم شامل کیاجاتاہے ۔روغن السی اور چونے کا پانی ہموزن ملاکر مرہم تیا ر کی جا تی ہے ۔جو جلے ہوئے مقام پر لگانے سے فوراً سو زش کو تسکین اور زخم کو خشک کر دیتا ہے۔ اگر اس میں کا ر پا لک ایسڈ دو فیصدی ملا کر لیا جائے تو یہ مفید تر ہو تا ہے۔ روغن کتان پید ا کر تا ہے ۔اعآاء کو قوت دینے کے علا وہ وافع بلغم ہے اور پیشاب جا ری کر تا ہے۔ رو غن کتان لگانے اور پلا نے سے دل کے درد کو زائل کر تا ہے ۔ اس کے پلانے سے قولنج کو صحت ہو تی ہے۔ خاص طور بر لہسن میں جو ش دے کر پلا نا اس کام میں فوری فائدہ ہو تا ہے۔اس کی مالش خشکی دفع کر تی ہے۔ 
نو ٹ ۔
یہ روغن چو پائے کا قو لنج ابھی کھو لتا ہے ۔وید کہتے ہیں کہ السی کا تیل نیم گرم کا ن میں ٹپکا نے سے کان کا درد دفع ہو تا ہے۔
مضر ۔
بینا ئی اور باہ کو کمزور کر تا ہے۔ معدہ کے لیے بھی مفید نہیں ہے۔
مصلح۔
کشنیز ، سکنجین ۔ْ
مقدار خوراک ۔
حسب ضرورت اور عمر ۔ 
ترکیب استعمال۔
بیرونی واندرونی ورموں مثلاًزات الجنب ، ذات الریہ ، ور م عر وق حشفہ یعنی ورم باریطون میں مفید ہے۔
روغن السی کو آب اہک (چونے کے پانی میں )میں اور کار پالک ایسڈ دو فیصدی ملاکر استعمال کر نے سے جلے ہو ئے مقا م کے درد ، جلن اور سوزش کو یہ مرہم فوراًتسکین دیتا ہے۔اور زخم کو جلدی خشک کر تا ہے ۔
مر کب ۔
قرو طی بزرالکتان ۔
زنانہ ومرد انہ پو شیدہ امراض کے علا ج کے لئے ابھی کا ل کریں 
جدید تحقیق ۔
فکسڈآئیل یعنی نہ اڑنے والا تیل ، اس روغن میں گلیسر ل اورلائی فولک ایسڈ پچیس سے تیس فیصد ہو تا ہے۔

نبات

Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net
بندا
(Cymbivm Tissalipos)

دیگرنام۔
عربی میں خرقطان ،بنگالی میں بازو،سندھی میں گوساٹو،فارسی میں رقو سنسکرت میں ورتک ۔
ماہیت۔
ایک نبات ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ زمین پر نہیں اگتی بلکہ کسی پرانے درخت پر پیدا ہوتی ہے۔اس کے ساتھ اس کو منسوب کرتے ہیں 
مثلاًکیکر کابندا اور سرس کا بندا وغیرہ اس کے پتے گوندنی کے پتوں کے مانند لیکن اس سے زیادہ لمبے اور کم چوڑے ہوتے ہیں۔پھول سرخ سیاہیمائل لمبے دنبالے والے ہوتے ہیں۔پھل کھرنی کے برابر اور گچھوں میں لگتے ہیں۔جن کاذائقہ پھسیکا ہوتاہے۔
مزاج۔
سرد خشک۔
استعمال۔
بندے کے پتوں کا باریک پیس کر بچوں کے قلاع دہن کرتے ہیں۔سحج اسہال خونی اور نفث الدم میں سفوف بناکر کھاتے ہیں۔یا پانی میں چھان کرپلاتے ہیں۔اس کے تازہ پتوں کا پانی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے جوڑے اور موچ کیلئے مفیدہے۔یہ بھی یاد رکھیں کہ جس قسم کے درخت پرہوگا افعال و خواص درخت کی مانند ہونگے۔
نفع۔
منقی دماغ اور مقوی معدہ ۔
مضر۔
قابض۔
مصلح۔
فلفل سیاہ اور شہد ۔
مقدارخوراک۔
تین سے پانچ گرام ماشے تازہ گرام تازہ پرپتوں کا پانی دو سے تین تولہ (تیس ملی لیٹر ) ۔

مردانہ و زنانہ پوشیدہ امراض کا گارنٹی سے علاج
 Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net
بنفشہ
(Serpens)

لاطینی میں ۔
Viola Odorata
خاندان۔
Violaceae
دیگرنام۔
عربی میں فرفیریا،بنفشج ،ببگ 

بکن بکم بلادر بھلانواںبلوط جفت بلوط

 Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net

بکن(بکم)
لاطینی میں ۔
Lippia Nodiflora
دیگرنام۔
فارسی میں بکم عربی میں فلفل الماء ،ہندی میں جل پیپل یا اسپابوٹہ پنجابی میں توت بوٹی،گجراتی میں رت بولیو بنگالی میں کانچڑا کہتے ہیں۔
ماہیت۔
ایک بوٹی ہے جو زمین پرمفروش ہوتی ہے۔اس کی شاخیں باریک اور پتلی پتے چھوٹے بیضوی لمبے نوکدار قدرے چوڑے دندانہ دار جو شہتوت کے پتوں سے ملتے جلتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پنجابی میں اس کو توت بوٹی بھی کہاجاتا ہے۔شاخ کی ہرگرہ پر ایک جھوٹاگول پھول ہوتا ہے۔جس سے مچھلی کی مانند بو آتی ہے۔اس لئے سنسکرت میں اس کا صفائی نام مچھا گندھارا رکھا گیا ہے۔اسے گھنڈی جیسے بیگنی رنگ کے پھول لگتے ہیں۔جوپیپل کے ہم شکل ہوتے ہیں۔
رنگ۔
پتے سبز پھول اودے یاکاسنی ۔
ذائقہ۔
تلخ اور کسیلا۔
مقام اور پیدائش۔
پاکستان اور ہندوستان ،دریاؤں اور نہروں کے کناروں کے علاوہ باغوں میں بکثرت اور ہر موسم میں ملتی ہے۔دریاؤں اور نہروں کے کنارے بکثرت ہونے کی وجہ سے ہندی میں اس کو جل پیپل کہتے ہیں۔
مزاج۔
گرم وخشک درجہ دوم۔
www.sayhat.net
بلادر (بھلانواں)
(Marking Nuts)

لاطینی میں۔
Semicarpus Anacardium
خاندان۔
Anaca.Radiacaea
دیگرنام۔
عربی میں الفہم یا،حب القلب ،فارسی میں بلادر ہندی میں بھلانواں ،بنگلہ دیش میں بھلا یا بھیلوا،مرہٹی میں بیلبا،گجراتی میں بھلاماں ۔سنسگرت میں بھلاتک انگریزی میں مارکنگ نٹ نیری اور رومی میں انقردیا کہتے ہیں۔
ماہیت۔
www.sayhat.net

بطخ بکائن دھرک بکری

 Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net
بطخ
(Duck)
ماہیت۔
مشہور پرندہ جوکہ مرغالی کی قسم سے ہے۔جس کو گھروں میں پالتے ہیں۔یہ پانی پر بھی تیرتا ہے بڑی بط یعنی ہنس مکھ کو عربی میں اوز ،فارسی میں قاز کہتے ہیں۔
اور انگریزی میں گوز کہتے ہیں۔
رنگ ۔
سفید ،بھورا،چونچ زرد جبکہ گوشت سرخ ہوتاہے۔
مزاج۔
بطخ کا پتہ گرم تردرجہ اول۔
استعمال۔
کیثر القد اور دافع ریاح ہے۔بازوؤں کا گوشت بدن کو فربہ کرتا ہے۔گردوں اور باہ کو تقویت دیتاہے۔قوت باہ اور ازیادمنی کیلئے تمام گوشتوں سے بہتر ہے لیکن زود ہضم نہیں۔
خفقان کو سفید ہے۔اس کا جگر صالح خون پیدا کرتا ہے۔چربی اس کی ملطف ملین اور محلل ہے اور سب چربیوں سے صالح ہے۔بواسیر کے درد کو ؛نفع بخشتی ہے ورموں کو تحلیل کرتا ہے۔انڈے کے فائدے مرغی کے انڈے کی طرح مگر اثر میں ذراکمزور ہوتے ہیں
۔نوت۔گاؤں کے لوگ اس کو گھر کی حفاظت کے لئے بھی پالتے ہیں۔
کیونکہ یہ اجنبی لوگوں کو دیکھ کر چیخنا شروع کردیتی ہے جس سے چوری کا خطرہ نہیں رہتا ہے۔
 Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net
بکائن (دھرک)
(The persian Lilac Bead Tree)

دیگرنام۔
سندھی میں بکائن نم ،فارسی میں بان ،بنگالی میں گھوڑانیم ،گجراتی میں بکانیہ ،سنسکرت میں نم برکشن،پنجابی میں دھرک کہتے ہیں۔
ماہیت۔
بکائن مشہوردرخت ہے جس کو میری مادری زبان میں دھرک کہتے ہیں۔
اس کے پتے پھول اور نیم سے مشابہ ہوتے ہیں لیکن پھل کے اندر سے چار خانے ہوتے ہیں اور ہرایک خانے میں ایک تخم ہوتے ہیں تخم بکائن کے اوپر سیاہ رنگکی جھلی سی ہوتی ہے۔اور اندر سے مغز سفید ہوتاہے۔زیادہ تر یہ مغز ہی دواًمستعمل ہے۔انہیں بیجوں کو حب النان یا تخم بکائن او ر پنجابی میں دھرکنے کہتے ہیں۔
بعض اطباء بکائن کا فارسی نام آزاد درخت لکھتے ہیں۔جوکہ صیحح نہیں ہے۔
رنگ۔
پتے سبز اور پھو ل زرد ۔
مقام پیدائش۔
پاکستان ،ہندوستان برما اور ایران ۔
مزاج۔
گرم خشک بدرجہ دوم ۔
افعال۔
مصفیٰ خون ،مسکن درد،دافع بواسیر منقیٰ و مجفف قروح ،قاتل کرم شکم دافع تپ مزمن و ربع ۔
استعمال۔۔
مصفیٰ خون ہونے کی وجہ سے اس کے پتے اور پوست امراض فساد خون مثلاًجذام اور برض وغیرہ میں مستعمل ہیں۔
مسکن درد ہونے کی وجہ سے پتوں کو جوش دے کر مقام ماؤف کو بھپارہ دیتے ہیں اور اسکے پتوں کا بھجیا باندھتے ہیں۔بواسیر میں اسکے تغموں مغز دے کر دیگر ادویہ کےہمراہ بکثرت مستعمل ہے۔پوست بکائن کو جلا کر کتھ سفید کے ہمراہ مرض قلاع میں منہ کے اندر چھڑکتے ہیں۔کرم شکم خصوصاًحب القرح اور خراطین کے قتل اور اخراج کیلئے پوست بیخ بکائن جوشاندہ پلاتے ہیں۔مزمن بخار اور تپ چوتھیا میں درخت بکائن کا درمیانی پوست لے کر تخم کاسنی نیم کوفتہ اور دھمالیہ کے ہمراہ نقوع بناکر پلاتے ہیں۔
بکائن کے پختہ پھل کو جوکوب کرکے پانی میں پکا کر سرد ھونے سے بال لمبے ہوجاتے ہیں۔اور جوئیں نہیں پرتیں ۔
نوٹ۔مغز بکائن زیادہ مقدار میں سمی اثرات رکھتی ہے۔اور چھ سات بیج کھالینے سے موت واقع ہوسکتی ہے۔
نفع خاص۔
مصفیٰ خون ،
مضر۔
معدہ اورجگر۔
مصلح۔
انیسول۔
بدل۔تج یاجاوتری ۔
مقدارخوراک۔
مغزتخم بکائن چاررتی سے ایک ماشہ پوست بکائن سات ماشہ سے ایک تولہ ۔
مشہور مرکب۔
حب بواسیر ،معجون مسکن درد رحم۔
Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net
بکری
(Goat)

دیگرنام ۔
عربی میں ماغر،فارسی میں بز گوسفند انگریزی میں گوٹ کہتے ہیں۔ماہیت۔مشہور عام چوپایہ ہے اس کے نر کو بریابکرا کہتے ہیں۔
رنگ ۔
مختلف۔
مزاج۔
گرم تر۔
استعمال۔
بکرے کا گوشت خون صالح پید اکرتا ہے۔گرم گرم گوشت چوٹ کے مقام پر باندھنے سے درد کو تسکن دیتا ہے۔کلیجی کو گرم توے پر رکھ کر اس کا پانی آنکھوں میں ڈالنا اندھراتے کو نظر آنامفید ہے۔مقوی باہ ہے چربی کا لیپ دردوں کو تسکین دیتاہے۔کمزور مریضوں کے لئے بزنما لہ یعنی بکری کے بچے کو گوشت تجویز کیاجاتاہے۔
کیونکہ چھوٹے بچوں کامعدہ چربیلا گوشت ہضم کرنے کا متحل نہیں ہوتا ہے۔

بسد بسفائج بسپکھرااٹ سٹ

 Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net

بسد
دیگرنام۔
عربی میں ناشف سندھی میں پاڑ مرجان ۔
ماہیت۔
ایک سرخ رنگ کا پتھر ہے سوراخ دار اور سخت ،خلیج فارس سے آتا ہے۔اس کو عموماًبیخ مرجان کہا جاتاہے۔لیکن یہ مونگے کی جڑ نہیں ہے۔
رنگ۔
سرخ۔
ذائقہ۔
پھیکا ۔
مقام پیدائش۔
خلیج فارس ،بجر عمان وغیرہ۔
مزاج۔
سرد ایک خشک درجہ دوم۔
افعال۔
قابض ،حابس الدم مجفف ،جالی مقوی و مفرح قلب۔
استعمال۔
بسد کامزاج سرد ہونے کے باوجود قابض بھی ہے۔لہذا نزف الدم کیلئے مفید ہے۔اور بواسیر خونی نفث الدم ،اسہال و موی ،قروح آمعاء میں استعمال کیا جاتا ہے۔
خفقان اور وسواس کیلئے مفید خیال کیاجاتا ہے۔جالی دار قابض ہونے کی وجہ سے اس کو پیس کر مفرد اًدیگر ادویہ میں ملا کر بطور سنون استعمال کرتے ہیں۔دانتوں کی زردی وغیرہ کو صاف کرتا ہے خصوصاًجالی اور مجفف ہونے کی وجہ سے تقویت بصر بیاض چشم و معہ اور جرب و سلاق کیلئےاکتھالاًمفید ہے۔اسی وجہ دے بدن کے سیلان خون کو روک دیتا ہے۔
باریک پیس کر زخموں پر چھڑک دیا جاتاہے۔تو زخموں کیلئے خراب گوشت کوکھاجائے اور انکو خشک کرنے کیلئے بھی زروراًاستعمال کیاجاتا ہے۔روغن بلسان کے ہمراہ کان میں ٹپکانا درد کان کو نفع دیتا ہے۔
نفع خاص۔
مفرح و مقوی قلب مضر گردہ کیلئے ،غشیان پیدا کرتا ہے۔
مصلح۔
طبا شیر ،کیترا ،
www.sayhat.net
بسفائج۔
(Polypodium)

لاطینی میں۔
Polypodium Vulare
خاندان۔
Polypoiaceae(ہنس راج)
دیگرنام۔
عربی میں اخرا س الکلب ،فارسی میں اضراس الکلب ،ہندی میں کھنگالی ،اور انگریزی میں پولی پوڈیم کہتے ہیں۔
ماہیت۔
یہ ہنس راج شکل کی بوٹی ہے مگر ڈالی بڑی اور موٹی ہوتی ہے۔پتے کنگرے دار کٹے ہوئے کنارے ہوتے ہیں۔جڑیں گرہ دار،ہرگرہ پر باریک ریشے لگتے ہیں۔جس کی مددسے اس کی شکل کن کھچورے کی طرح ہوتی ہے۔اس پر باریک رواں سا بھی معلوم ہوتا ہے۔یہ سخت اور مضبوط ہوتی ہے۔چھنگلی یعنی قلم کی موٹائی کے برابر جڑ تازہ اوپر سے سرخ زردی مائل اندرسے پستہ کی طرح سبز ذائقہ تلخ مٹھاس لئے ہوء کیبلی اچھی ہوتی ہے۔جڑ جب پرانی ہوتو بطور سرخی مائل ہوجاتی ہے۔اور یہی بطور دواء مستعمل ہے۔
مقام پیدائش۔
یہ نمناک کنکریلی اور پتھریلی زمینوں پر اگتی ہے۔اور یہ عموماًبلوبلوط کے درختوں کے نیچے عموماًہوتی ہے۔
ایک اور قسم کی گروہ دار جڑہے۔جو چھپکلی کے مانند ہوتی ہے۔اندر سے سبز او رسیاہ جس کا رنگ اندر سے سبز نکلے وہ بہترین ہے۔اس کو بسفائج فستقی کہتے ہیں۔
مزاج۔
گرم اور خشک درجہ دوم بعض کے نزدیک معتدل ہے۔
افعال ۔
مسہل بلغم و سودا و بلغم کے خارج کرنے کے لئے امراض سودؤی و بلغمی مثلاًجزام صراع (مرگی)مالیخولیا)اور وجع المفاصل میں استعمال کرتے ہیں۔سود اور بلغم کے مادے کو دستوں کے ذریعے سے خارج کرتی ہے جس کی وجہ سے قولنج و نفخ بھی کھلاتے ہیں۔سرکہ کے ہمراہ اس کا لیپ عظم طحال کو دفع کرتا ہے۔
نوٹ۔
www.sayhat.net

برہمی بریارابریالہ بڑھل ڈھیؤ

 Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net

برہمی
(Indain Penny Wort)

لاطینی میں۔
Hydrocotyle .Asiatica
خاندان۔
Bacopa Monnieri
دیگرنام۔
بنگالی مین تھل کری،تامل میں غیر برامی ،سنسکرت میں براہمی جبکہ انگریزی میں انڈین پینی ورٹ کہتے ہیں۔
ماہیت۔
برہمی ایک چھوٹی بوٹی ہے۔جوکہ چھتے دار ہوتی ہے۔جڑ ہی سے باریک باریک شاخیں نکلتی ہیں۔اور ان کے سرے پر ایک پتا لگا ہوتا ہے۔پتے بڑے یعنی پیسے کے برابر گول نو انچ لمبے ہوتے ہیں۔اور بیل نما پھیلے ہوتے ہیں۔پودے میں سے ایک شاخ نکل کر زمین پر پھیل جاتی ہے۔اس طرح یہ جڑیں بناتی ہوئی پھیلتی جاتی ہے۔پتوں کی جڑ میں ننھا سا پھول اور بہت چھوٹا ساتخم پیدا ہوتا ہے۔
برہمی بوٹی کو تازہ استعمال کرناچاہیے۔اس کا ذائقہ گاجر کے پتوں کی طرح کسیلا ہوتا ہے۔خشک کرنا ہوتو سایہ میں سوکھی بہتر ہے ورنہ دھوپ میں ایتھر اور الکوحل اڑجاتا ہے۔
برہمی کی اقسام۔
اس کی دوسری قسم منڈوک پرنی کہاجاتا ہے۔اس کا پتا اصل برہمی سے زرا بڑااور موٹاہوتا ہے۔باقی تمام شکل و صورت ایک سی ہوتی ہے۔اور اس کے اوصاف
برہمی کی مانند لیکن ذراکم ہوتے ہیں۔مگر بعض وئیداسی کو ہی اصلی برہمی بوٹی کہتے ہیں۔جبکہ بنگال حکیم جل کو نیم کو برہمی بوٹی قرار دیتے ہیں۔برہمی گھاس کے نام کی خوشبو دار چیز پنساری تیل کی شکل میں فروخت کرتے ہیں۔یہ برہمی گھاس تالیس پتر کا پہاڑی نام ہے۔اس لیے مغالط سے بچنا چاہیے۔
تمام پودا ہی کام میں لاناچاہیے۔
مقام پیدائش۔
برہمی بوٹی عموماًندی نالوں ،تابوں اور نمناک زمینوں میں عموماًتین ہزار فٹ بلند پہاڑوں پر پیدا ہوتی ہے۔جموں و کشمیر ،ہری پور جبکہ بھارت میں گنگا جمنا کے کناروں نیز ان کے نہروں کے کناروں پر دوارشی کیش رڑکی ،سہارنپور دہرہ دون پر ہوتی ہے۔
مزاج۔
گرم خشک درجہ دوم بعض کے نزدیک سرد خشک۔
افعال۔
مقوی دماغ و حافظ،مصفیٰ خون ملین شکم مدربول ۔
استعمال۔
برہمی اور مندوک پرنی کو زیادہ تر شیرہ یا سفوف کی شکل میں تقویت حافظ کیلئے شیرگاؤ کے ہمراہ کھلاتے ہیں۔بعض اوقات دوسری مناسب ادویہ کے ہمراہ سفوف یاحبوب یامعجون بنا کر بھی استعمال کرتے ہیں۔جوکہ نسیان ضعف دماغ ،مرگی ،جنون اور دیگر دماغی امراض میں مفید ہے۔برہمی کارس نکال کرشہد ملا کر گائے کے دودھ کے ساتھ دینا بھی مفید ہے۔پھوڑے پھنسوں اور دماغ کو تقویت دیتا ہے۔بالوں کوسیاہ مضوط بناتا ہے
مقوی دماغ نسخہ ۔
دانہ الائچی ایک گرام ،مغزبادام دس عدد مغزکدو چھ گرام مرچ سیاہ سات عدد برہمی دس گرام کے ہمراہ ٹھنڈی رگڑ کر پیءں۔تودردسر۔ضعف دماغ
اور ضعف بصارت کو دور کرتی ہے۔حافظ کو بڑھاتی ہے۔برہمی یامنڈرک پرنی کو گھی میں بھون کر لگاتار ایک ماہ دودھ کے ساتھ استعمال کیا جائے تو جسم کو خوبصورت حافظ اور عمر بڑھتی ہے۔دوران علاج میں اناج سے پرہیز رکھیں اور بطور دوا استعمال کریں۔بعض اطباءً دیگر امراض مثلاًبرص ،جریان منی وغیرہ میں بھی مختلف ترکیبوں سے کھلاتے ہیں۔برہمی کو تین ماہ سے زاہد عرصہ لگاتار جاری نہ رکھنا جاہیے۔ورنہ اثرات پیدا کرتی ہیں۔
نفع خاص۔
مفرح ومقوی اعضائے رئیسہ ۔
مضر۔
گرم مزاج کیلئے ۔
مصلح۔
کشنیز خشک۔اور گھی۔
www.sayhat.net
www.sayhat.net

برنا برنجاسف برو

 Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net
برنا
(Crateya Religiosa)

دیگرنام۔
ہندی میں برن،گجراتی میں ورنو ،بنگالی میں ورن باچھ یا گاچھ۔
ماہیت۔
ایک بڑا درخت ہے۔جس کے پتے پر برچھی نما بیل کے پتوں کی مانند ایک شاخ میں تین تین لگتے ہیں۔شکل میں پیپل کے پتوں سے مشابہ لیکن ان سے چھوٹے ہوتے ہیں۔اس کو اپریل مئی میں خوبصورت پھول لگتے ہیں۔پھل گول لیموں سے چھوٹا جوکہ خام حالت میں سبز اورپکنے کے بعد سرخ ہوجاتا ہے۔چھال کا رنگ باہرکی طرف سے بھورا ،اندر کی طرف سے سبز پھول سفید پتے کی رنگت اوپر کی طرف سے گہری سبز اور نیچے کی طرف ہلکی سبز ۔
ذائقہ۔
برگ پھل اور پھول تلخ جبکہ پھل پکنے کے بعد قدرے شیریں ہوجاتاہے۔
مقام پیدائش۔
پاکستان میں خصوصاًدریائے راوی کا مشرقی علاقہ مالا بار ،ہندوستان میں آسام اور بنگال کے گرم حصوں میں پایاجاتا ہے۔
مزاج۔
گرم تین خشک درجہ دوم۔
افعال۔
مدربول ،مقت سنگ ،محلل و منفج اورام۔
استعمال۔
پوست درخت برناکو عسر بول کو دور کرنے اور گردہ ،مثانہ کی پتھری اور رنگ کو نکالنے کیلئے پانی میں جوش دے کر پلاتے ہیں۔پوست یا پتوں کو پانی میں پکا کر اورام کی تحلیل کیلئے باندھتے ہیں یا لیموں کے رس یا سرکہ میں پیس کرضماد کرتے ہیں۔اس کا ضماد پندرہ منٹ میں جلد کو لال کردیتا ہے۔اور اگر زیادہ دیر جلد پر لگا رہے
تو آبلہ پیدا کرتا ہے۔سمن مفرط کیلئے اس کے پتوں کا ساگ بنا کر کھایا جاتا ہے۔کون کن میں برنا کے پتوں کا ریاحی میں استعمال کرتے ہیں۔
نفع خاص۔
پیشا ب کو جاری کرنے کیلئے اور سنگ گردہ کیلئے ۔
مقدارخوراک۔
تین سے پانچ گرام(ماشے) 

Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net 
برنجاسف
(Mel Foil)

لاطینی میں۔
Achillea Millefolium
خاندان۔
Compositae
دیگرنام۔
عربی میں شیویلا،سندھی میں گویادریا گومادر،سندھی میں گندار ،فارسی میں بوئے مادراں،
ماہیت۔
ایک پودا ہے جوافنتین سے ملتی جلتی ہے۔اسکا تنا نصف گز لمبا ہوتا ہے۔شاخیں پتلی پتلی ہوتی ہیں۔پتے سرویاماجوکی طرح کٹے پھٹے برچھی کی نوک کی طرح چھوٹے حصوں میں منقسم ہوتے ہیں۔اور ڈالیوں پر ایک چیپ دار رطوبت ہوتی ہے۔پھول چھوٹے سوئے کی طرح چھتردار زرد سفید اور نیلگوں ہوتے ہیں۔جوکہ قدرگول جن کی خوشبوبابونہ کی طرح ہے جبکہ بوافنتین کی طرح آتی ہے۔
پرنجاسف کارنگ۔
پتے سبزپھول زرد اور سفید بعض نیلے ۔
ذائقہ۔
تلخ تیزی لئے ہوئے۔
برنجاسف کی اقسام۔
اس کی دو قسمیں ہیں۔
نر اور مادہ دونوں کے فوائد برابرہیں۔
مقام پیدائش۔
ہمالیہ کے دامن میں کشمیر ،کانگڑھ اور کمایوں تک جبکہ عموماً دریاؤں کے کناروں ،سرسبز پہاڑوں اور سایہ دار جگہوں میں بکثرت ہوتی ہیں۔
مزاج۔
گرم تر درجہ
افعال۔
وافع بخار،مسخن مفتت سنگ گردہ مثانہ ،محلل ،مدربول و حیض ،ملطف ،مفتح،
استعمال۔
مسخن و محلل و مفتح ہونے کی وجہ سے اورام آحشا میں استعمال کرتے ہیں۔انہیں افعال اور مدر ہونے کے وجہ سے مشمیہ ،صلابت رحم،عسر ولادت،احتباس البول وحیض میں اس کا جوشاندہ استعمال ہوتا ہے۔اس کا جوشاندہ پلانااور نطول و آبزن کی وجہ سے پتھری کوخارج کرتا ہے۔بخار غشی اور زکام میں مفیدہے۔
مضر۔
گردہ کیلئے ۔
مصلح۔
انیسوں یاخشخاش
بدل۔
امراض جگر میں افنیتن یا بابونہ ۔
نفع خاص۔
کیمیاوی جزو۔
اس میں ایک گہرا سبزیا نیلاہٹ لئے ہوئے تیز اڑنے والا تیل اور ایک تیز ست ایچ لین پایاجاتا ہے۔
مقدارخوراک۔
تین سے پانچ گرام(ماشے)۔

 Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net 
برو
(Skimmia Lauriola)

دیگرنام۔
ہندی میں برو،کشمیری میں پٹار،پنجابی میں شلنگلی ۔سندھی میں پٹارو اور انگلش میں سیکیمیا لاری اولا کہتے ہیں۔
ماہیت۔
یہ سدا بہار گھاس تین سے پانچ فٹ تک اونچی ہوتی ہے۔اس کو مئی جون کے مہینے میں زروی مائل پھول سبز گچھوں میں لگتے ہیں۔اس کی بو میٹھی اور تیز ہوتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ہرن کے نافے ہیں۔خوشبو اسکے گھاس کے کھانے کی وجہ سے ہوتی ہے۔پھول زردی اور پھل سرخ ہوتے ہیں۔
مقام پیدائش۔
کشمیر کے لوگ اس گھا س کو خوشبو کی طور پہ جلاتے ہیں۔اس کے تازہ پتوں میں سے نصف مقدار تیل نکلتا ہے صابن سازی کے کام آتا ہے۔یادرکھیں خشک پتوں میں سے تیل نہیں نکل سکتا ۔

برف برگ تیت برہم ڈنڈی

 Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net 
برف
ice) 

دیگرنام۔
عربی میں شلج ،فارسی میں یخ اور انگریزی میں آئس کہتے ہیں۔
ماہیت۔
پانی کو ترکیب خاص سے جمالیاجاتا ہے۔مشہور عام ہے برف دو قسم کی ہوتی ہے۔ایک قدرتی دوسری مصنوعی ۔
مزاج۔
سرد خشک۔
افعال۔
مخدر،مسکن حرارت و عطیش ،مقامی ،قابض۔
استعمال۔
برف کو زیادہ تر موسم گرما میں پیاس بجھانے کیلئے پیتے ہیں۔یہ گرم مزاجوں کیلئے موافق ہے۔پیاس کو بجھاتی اور معدے کو تقویت دیتی ہے۔سرد بلغمی مزاجوں اور بوڑھوں کیلئے غیر مناسب اندرونی کے اورام و صلابات کو ضرر پہنچاتی ہے۔دانتوں کو بھی نقصان دیتی ہے۔اورام حارہ کی ابتداء میں روع مواد کیلئے اس کا بیرونی استعمال کیاجاتا ہے۔رمد حارکی ابتداء میں آنکھ پر برف رکھنا مفید ہے۔برف کی سردی سے عروق شعریہ سکڑ جاتے ہیں۔اس لیے برف کو تا لوپرلگانا نکسیر کو روکتا ہے۔
مضر۔
گلااور معدہ کیلئے ۔
مقدار خوراک۔
بقدرضرورت۔

 Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net 
برگ تیت
دیگرنام۔
فارسی میں برگ تبت،پنجابی میں کشمیر ی پٹھا ،سندھی میں پن کشمیری ۔یادرکھیں پنجابی میں پٹھا ’’پتے ‘‘کو کہتے ہیں۔
مقام پیدائش۔
کشمیراور تبت۔
رنگ۔
بھورا سرخی مائل ۔
ذائقہ۔
پھیکا ۔
ماہیت۔
برگ تبت کو تنہا یا دیگر ادویہ کے ہمراہ باریگ پیس کر بطور پلاس پاپڑھ استعما ل کرتے ہیں۔نزلہ زکام بند ہونے کی حالت میں نہایت فائدہ مند ہے۔
نسوار۔
برگ تبت کو ثمرکٹائی خردو+دانہ الائچی خرد وغیرہ کے ہمراہ باریک پیس کر نسوار بناتے ہیں۔جومرگی ،سکتہ اور بالخصوص شقیقہ کے علاوہ مزمن نزلہ وزکاممیں نہاہیت مفید ہے۔
نفع خاص۔
نزلہ کوجاری کرتاہے۔
بدل۔
نک چھکنی۔
 Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net 
برہم ڈنڈی
(Yellow Thistle)

لاطینی میں ۔
Tricholepis Glaberrima Compositae
خاندان۔
compositac
دیگرنام۔
سندھی میں لبھ ،گجراتی میں تل کنٹو،بنگالی میں سیال کانٹا اور انگریزی میں ییلوتھسٹل ۔
ماہیت۔
برہم ڈنڈی کا دو سے چار فٹ اونچا پودا ہوتا ہے۔جس کا تنا بالکل سیدھا اور پتے برچھی کی طرح ایک سے چارانچ لمبے اور دندانے دار ہوتے ہیں۔
پھول پتوں کے ساتھ گچھوں میں بیگنی یا گلابی طرح کے ہوتے ہیں۔جن کا رنگ نیلا سرخی مائل اس کے چاروں طرف نرم کانٹے ہوتے ہیں۔پھل ۔پودے کے درمیان میں ایک لمبی ڈنڈی نکلتی ہے۔جن کے اگلے حصے میں لمبے گول اونٹ کٹارہ کی طرح کے ہوتے ہیں۔
اقسام ۔
اس کی دو اقسام ہیں۔
خرد کو برہم ڈنڈی اور کلاں کو اونت کٹائی کہتے ہیں۔
مقام پیدائش۔
پاکستان ،کشمیر کے کچھ حصوں میں کھنڈرات وغیرہ آتے ہیں۔بھار ت میں راجستھان،آبو پہاڑ،مدھیہ بھارت،میسور ،حیدر آباد ،مشرقی اور مغربی پنجاب میں سرکوں کے کنارے اور ویران مقامات پر موسم سرما میں ملتی ہے۔
رنگ۔
سبز سیاہی مائل پھول بیگنی ۔
ذائقہ۔
نہایت تلخ۔
مزاج۔
گرم خشک
استعمال۔
برہم ڈنڈی کاسفوف شیرگاؤ کے ہمراہ جسم کو تقویت بخشنے کے علاوہ حافظہ کو قوی اور جریان وسیلان منی کیلئے مفید ہے۔
فلفل سیاہ کے ہمراہ پانی میں پیس کر بھی پلاتے ہیں۔جوکہ خارش پھوڑے پھنسی اور دیگر امراض جلدیہ و فساد میں نہاہت مفید ہے۔
یہی نسخہ برص میں بھی مفید ہے۔ جدام کیلئے برہم ڈنڈی ایک تولہ کالی مرچ سات دانے گھوٹ کر چالیس دان روزانہ استعمال کریں
اور ساتھ گھی ڈال کر بیسن کی روٹی کھلائی جائے ۔گلے کو صاف کرتی ہے۔بطور جوشاندہ یاخیساندہ آنکھ کی امراض ولادیت کے بعد رحم
کے درد ،ورم اور بادی امراض ،پیشاب کی جلن اور خون خوراک دوگھنٹہ قبل ہمراہ آب تازہ دی جاتی ہے۔اس طرح تپ لرزہ کا علاج
دو تین دن جاری رکھتا ہے۔اگر مریض کو بخار کے ساتھ کھانسی بھی ہوتو سفوف شہد کے ساتھ دیناچاہیے۔
بہتر یہ ہے کہ برہم ڈنڈی استعمال کرانے سے پہلے تپ لرزہ کے مریض کو ایک معمولی سا جلاب دے کر پیٹ صاف کرلیاجائے۔
مزمن بخاروں میں دیگر ادویہ کے ہمراہ استعمال کرتے ہیں۔اس کے بیج ملین ،مشتہی ،مقئی اور مخرج بلغم ہیں۔ان کا شیرہ نکال کر شیریں کرکےدمہ میں پلانا مفید ہیں۔
برھم ڈنڈی کا جوشاندہ رنگ نکھارتا ہے اور زخموں کو مفید ہے۔
نفع خاص۔
مصفیٰ خون۔
مضر۔
خشکی پیداکرتا ہے۔
مصلح۔
شہد اور گھی ۔
بدل۔
منڈی نیل کنٹھی مصفیٰ خون میں
مقدارخوراک۔
پانچ سے سات گرام سفوف جبکہ سبز کو ایک تولہ تک استعمال کیاجاسکتا ہے۔
مشہورمرکب۔
عر ق مرکب ،مصفیٰ خون بہ،نسخہ خاص وغیرہ ۔

بچھو عقرب بداری کند باراہی کند بدھارا،بدہارا

 Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net 
بچھو عقرب
(Scorpion)

دیگر نام۔
عربی میں عقرب،فارسی میں کثرروم سندھی میں وچھوں اور انگریزی میں سکارپین کہتے ہیں۔
ماہیت۔
مشہور زہریلا کیڑا ہے۔جس کے ڈنگ سے شدید درد ہوتا ہے۔بچھو سیاہ اور زرد قسم کا ہوتا ہے۔زردبچھو ہرجگہ مکانوں میں اینٹ،پتھروں کے نیچے اور اندھیرےکونوں میں اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیرو ں میں ملتا ہے۔اس کا زہر کمزور ہوتا ہے۔زردبچھو کسی دواء کے کام نہیں آتا ہے۔سیاہ بچھو پہاڑوں اور چٹانوں کی دراڑوں میں ہوتا ہے۔یہ عموماًساڑھے تین انچ لمبا ہوتا ہے۔یہ کیڑا تمام سال بے حس اور بھوکا پڑارہتا ہے۔صرف برسات کے موسم ہی باہر نکلتا ہے۔اور اسکی عمر عموماًچار سال ہوتی ہے۔اور سیاہ بچھوبطور دوامستمل ہے۔
مزاج۔
سردوخشک درجہ سوم۔
استعمال۔
اسکا روغن تیارکرکے استرخا،فالج اور لقوہ پرمالش کرتے ہیں۔بچھومنفت سنگ ہے۔اسکو جلا کر مناسب ادویہ کے ہمراہ یامفرد گردے ومثانہ کی پتھری کو توڑنے کیلئے استعمالکیاجاتا ہے۔اس کاروغن بواسیری مسوں کو گرانے کیلئے لگاتے ہیں۔مقام گزیدہ پر بچھو کوکچل کریااس کا شکم چاک کرکے باندھیں توزہر کو جذب کرلیتا ہے۔
روغن عقرب بھی پتھری کو توڑنے کی قوی دواء ہے۔خواہ پتھری گردے میں ہویا مثانہ میں یا پتہ میں سب کیلئے نافع دواء ہے اگر کسی کو بچھو کاٹ تو فوراًسیکھیرا بوٹی جڑی کا لیپ کرلیں۔اور عقرب گزیدہ کو مولی نوشادکھلائیں اور جائے نیش پر بھی مولی اور نوشاد رملاکرناندھیں۔
نفع خاص۔
فالج لقوہ اور وجع المفاصل ۔
مضر۔
پھیپھڑے کیلیے۔
مصلح۔
تخم کرفس اور آب پیاز۔
مقداراورخوراک۔
ایک سے دو رتی تک ۔
مرکب۔
حجرالیہود عقرب کا کشتہ بھی سنگ گروہ،مثانہ اور پتہ کیلئے مفید ترین ہے۔معجون عقرب ،روغن عقرب ۔

 Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net 
بداری کند(باراہی کند )
(I.Digiata)

دیگرنام۔
سندھی میں جوبہن جڑی ،پہاڑی میں نام سیالیاں،بنگالی میں بھوئن کمہڑیا بھوئی کمہڑا،تیلگو میں نیل کمبڈ،مرہٹی میں ڈکرکند،انگریزی میں ائی یومیادیجی ٹیٹا۔
ماہیت۔
بداری کند ایک بیل دارنبات کی جڑ ہے۔اسکی شکل زمین کند سے ملتی ہے۔رنگ سرخی مائل ہوتا ہے۔اس کے پتے اروی کے پتوں کے مانند ہوتے ہیں۔جوتقریباًچارانچ لمبے ار تین انچ چوڑے ہوتے ہیں۔اور تین تین اکٹھے ڈھاک کے پتوں کی مانند لگے رہتے ہیں۔پھول بیگنی رنگ کے موسم برسات میں کھلتے ہیں۔ہندی میں بدار زمین کو اور کند جڑ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔اور بداری کند کی جڑ ہی بطور دواًمستعمل ہے۔یہ گروہ دار جڑزمین میں بہت گہری ہوتی ہے۔اس کاحجم شلجم سے لے کر پیٹھے تک ہوتا ہے۔یہ زمین کھود کرنکالی جاتی ہے۔اس کو چھوٹے ٹکڑے کی کے خشک کرلیاجاتا ہے۔ورنہ سڑ جاتی ہے۔
رنگ۔
باہرسے سرخی مائل جبکہ اندرسے دودھ کی طرح سفید رنگ ۔
ذائقہ۔
شیریں۔
مقام پیدائش۔
شملہ،کالکا،ڈیرہ دون،پٹھان کوٹ ضلع کانگڑہ ،اردویہ پور،راجپوتانہ ۔کوہ آبو،ویشنودیوی ریاست جموں و کشمیر۔
مزاج۔
گرم و تر ،وئیدک کتب کے حوالے سے سرد تر،
افعال۔
مغلظ منی ،مقوی باہ،محلل،مولد شیر،مسمن بدن۔
استعمال۔
بداری کند زیادہ تر بطور نانخورش مستعمل ہے۔بھوک پیدا کرتی ہے۔
مقوی اعضاء اور مقوی باہ ہے۔
عورت میں دودھ کی کمی دور کرنے کیلئے اس کو خشک کرنے کے بعد مفرد یادیگر ادویہ کے ہمراہ سفوف بنا کر کھلاتے ہیں۔اگربچہ لاغروکمزور ہوتو اس کو موٹا تازہ بنانے کیلئے سفوف بداری کند ایک ماشہ شہد خالص میں ملا کر روزانہ جریان ضعف باہ میں کھلاتے ہیں۔ورموں کوتحلیل کرنے کیلئے پانی میں پیس کر ضماد کرتے ہیں۔سادھولوگ آبادی سے دور رہتے ہیں۔اور تارک الدنیا ہیں اسی کو کھاکرگزر اوقات کرتے ہیں۔یعنی جڑ کوکھود لاتے ہیں۔آگ میں رکھ کر پکا کر کھا لیتے ہیں۔
نفع خاص۔
مقوی معدہ ۔
مضر۔
گرم مزاجوں کیلئے۔
مزید تحقیق ۔
اس میں رال ،شکر اور کافی مقدار میں نشاستہ پایاجاتاہے۔
مقدارخوراک۔
بداری کندخشک سفوف ایک سے چھ گرام (ماشے)۔

 Copy Rights @DMAC 2016
www.sayhat.net 
بدھارا،بدہارا
(Elephant Creeper)

دیگرنام۔
عربی میں شارف،بنگالی میں ورہر دارک،سنسکرت میں ودہاوا اور انگریزی میں ایلی فنٹ کر پرکہتے ہیں۔
ماہیت۔
ایک بیل دار بوٹی کی جڑ ہے جو لمبی کھوکھلی اور ریشہ دار ہوتی ہے۔اس کے پتے پان نما لیکن بڑے دس بارہ انچ لمبے زیرس سطح پرریشمی روئیں والے ہوتے ہیں۔
اس کی دو اقسام ہیں
ایک قسم کا پھول سفید اور گھڑے کی مانند جبکہ دوسرے کا پھول بیگنی رنگ کے بڑے بڑے اور پتے کچنال کی مانند ہوتے ہیں۔جڑ بھورے رنگ کے ٹکڑوں کی شکل یا مٹھی کے برابریااس سے کم ہوتی ہے۔
ذائقہ۔
پھیکا سا تلخی مائل ہوتا ہے۔جوکہ بطور دواء مستعمل ہے۔
مقام پیدائش۔
پاکستان اور ہندوستان میں ساحلی علاقوں اور ریتلے میدانوں میں سطح سمندر سے ایک ہزار فٹ کی بلندی تک ہوتا ہے۔
مزاج۔
گرم وخشک درجہ اول اور بعض کے نزدیک معتدل ۔
استعمال۔
بدھاراکوزیادہ تر سرد بلغمی امراض مثلاً وجع المفاصل ،نقرس اور استستاء میں استعمال کرتے ہیں۔یہ محلل اورام ،ملین طبع اور مقوی باہ ہے۔اس کے پتے تیل چیڑ کر اورام پر باندھتے ہیں۔بدھارا کے پتوں کا رس ہم وزن سرکہ میں ملاکر دو دو تولہ کی مقدار میں پلانا سمن مفرط کیلئے اور جلندھر میں بھی مفید ہے۔بدھارا کی جڑ کا سفوف ایکہفتہ تک ستاور کے رس میں بھا ونا دے کی خشک کیاجائے اور ہر روز صبح کے وقت یہ سفوف مکھن یاچھ ماشہ گھی کے ہمراہ ایک مہینے تک استعمال کیاجائے تو بدن میں طاقت 
اورچستی آتی ہے۔عمرمیں زیادتی ہوتی ہے۔ہندو شاہستروں میں اس نسخے کو رسائن کا درجہ دیاگیا ہے۔
نفع خاص۔
مسہل بلغم ۔
مضر۔
گرم مزاجوں کیلئے۔
مصلح۔
آلوبخار کازلال۔
بدل۔
تربد۔
مقدارخوراک۔
تین سے پانچ گرام (ماشے)۔